تیرے ارد گررد وہ شور تھا
مری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکی نہ تو سن سکا
مری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا
مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا
مری بات بیچ میں رہ گئی
ترے شہر میں مرے ہم سفر
وہ دکھوں کا جم غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا
مری بات بیچ میں رہ گئی
وہ جو خواب تھے مرے سامنے
جو سراب تھے مرے سامنے
میں انہی میں ایسے الجھ گی
مری بات بیچ میں رہ گئی
عجب ایک چپ سی لگی مجھے
اسی ایک پل کے حصار میں،
ہوا جس گھڑی ترا سامنا،
مری بات بیچ میں رہ گئی،!
کہیں بے کنار تھیں خواہشیں
کہیں بے شمار تھیں الجھنیں،
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا،
مری بات بیچ میں رہ گئی
تھا جو شور میری صداؤں کا
مری نیم شب کی دعاؤں کا
ہوا ملتفت جو مرا خدا
مری بات بیچ میں رہ گئی
مری زندگی میں جو لوگ تھے
مرے آس پاس سے اٹھ گئے
میں تو رہ گی انہیں روکتی
مری بات بیچ میں رہ گئی
تری بے رخی کے حصار میں
غم زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا
مری بات بیچ میں رہ گئی
مجھے وہم تھا ترے سامنے
نہیں کھل سکے گی زباں مری
سو حقیقتا بھی وہی ہوا
مری بات بیچ میں رہ گئی
No comments:
Post a Comment