وہ کافی پہ مرتا تھا
اور میں چائے پیتی تھی
اسے شور اور کلب پسند تھے
مجھے لائبریریاں اور پرسکون سڑکیں
خاموش لوگ مرے ہوئے لگتے تھے اسے
مجھے خاموش لوگ پسند تھے
وہ مستنصرحسین تارڑ کو پڑھتا تھا
میں اشفاق احمد کو
اسے وارث شاہ کی شاعری پسند تھی
اور مجھے خواجہ فرید ؒ کی
وہ استنبول دیکھنا چاہتا تھا ،
میں جلال آباد جانا چاہتی تھی
اسے روای کے کنارے چاند اچھا لگتا تھا
میں ستلج کے کنارے بیٹھ کر ڈوبتا سورج دیکھنا چاہتی تھی
اس کی باتوں میں مہنگے شہر تھے
اور میری باتوں میں سمرقند, بغداد , دمشق, قاہرہ
نہ میں نے اسے بدلنا چاہا نہ اس نے مجھے
ایک عرصہ ہوا دونوں کو جدا ہوئے
کچھ دن پہلے پتہ چلا ،
وہ اب پرسکون رہنے لگا ہے،
ستلج بھی دیکھ آیا یے
اشفاق احمد کو پڑھنے لگا ہے
آدھی رات کو اچانک سے اس کا دل اب چائے پینے کو کرتا ہے!
اور میں....
میں بھی اب اکثر کافی پی لیتی ہوں
مستنصرحسین تارڑ کو پڑھنے لگی ہوں
استنبول بھی اچھا لگنے لگا ہے ۔
No comments:
Post a Comment