کسی کو آپ کے بالوں کی چاندی سے محبت ہو
کسی کو آپ کی آنکھوں پہ اب بھی پیار آتا ہو
لبوں پر مسکراہٹ کے گلابی پھول کھل پائیں
جبیں کی جُھرّیوں میں روشنی سمٹی ہوئی تو
بُڑھاپا خوبصورت ہے۔
شکن آلود ہاتھوں پر دمکتے ریشمی بوسے
سعادت کا، عقیدت کا، تقدّس کا حوالہ ہوں
جوانی یاد کرتا دل اداسی کا سمندر ہو
اداسی ﮐﮯ سمندر میں کوئی ہمراہ تَیرے تو
بُڑھاپا خوبصورت ہے۔
ذرا سا لڑکھڑائیں تو سہارے دوڑ کر آئیں
نئے اخبار لا کر دیں ،پُرانے گیت سُنوائیں
بصارت کی رسائی میں پسندیدہ کتابیں ہوں
مہکتے سبز موسم ہوں، پرندے ہوں،شجر ہوں تو
بُڑھاپا خوب صورت ہے۔
پرانی داستانیں شوق سے سنتا رہے کوئی
محبت سے دل و جاں کی تھکن چنتا رہے کوئی
زرا سی دھوپ میں حدّت بڑھے تو چھاؤں مل جاۓ
برستے بادلوں میں چھتریاں تن جائیں سر پر تو
بُڑھاپا خوبصورت ہے۔
جنہیں دیکھیں تو آنکھوں میں ستارے جگمگا اُٹھیں
جنہیں چُومیں تو ہونٹوں پر دُعائیں جھلمِلا اُٹھیں
جواں رشتوں کی دولت سے اگر دامن بھرا ہو تو
رفیقِ دل، شریکِ جاں برابر میں کھڑا ہو تو
بُڑھاپا خوبصورت ہے۔
No comments:
Post a Comment