سائنس میں ہم ایٹم کی ساخت کے حوالے سے اکثر یہ کہتے اور سنتے ہیں کہ ایٹم کی سب سے مستحکم حالت (Stable State) اسکی گراؤنڈ اسٹیٹ ہوتی ہے، جتنا یہ اپنے مرکز یعنی نیوکلیئر (Nucleus) سے نزدیک ہوگا، اور جتنا انرجی لیول کم ہوگا یہ اتنا ہی سٹیبل ہوگا، اسے مرکز سے توڑنے کے لیے اتنی ہی زیادہ انرجی دینی پڑے گی، باہر کے الیکٹرک اور میگنیٹک فیلڈ کا اس پر اثر نہ ہونے کے برابر ہوگا، مگر جونہی یہ کسی دوسرے الیکٹرون، نیوٹران یا روشنی کے ٹکرانے سے انرجی حاصل کرے گا تو یہ ایکسائٹڈ اسٹیٹ ( Excited State) میں چلا جائے گا، وہاں اس کے پاس انرجی تو زیادہ ہوگی مگر یہ اپنا استحکام (Stability) کھو دے گا، اور اگر یہ اپنے مرکز سے ٹوٹ گیا تو کوئی بھی الیکٹرک یا میگنیٹک فیلڈ اسے اپنی مرضی سے حرکت کرنے پر مجبور کر دے گا.
ایٹم کی طرح "ابن آدم" کا بھی یہی حال ہے، اس کی بھی سب سے سٹیبل سٹیٹ عاجزی اور انکساری ہے، اس کا سکون اسی میں چھپا ہے، جتنا یہ اپنے مرکز یعنی رب سے قریب ہوگا، اسے توڑنا اتنا ہی مشکل ہوگا، یہ دنیا کی شہوات اور فتنوں سے بچا رہے گا، اور اگر اپنے نفس کی خواہشات پر چلے گا، دنیا کی لذتوں میں الجھے گا، کسی کا حق مار کر اپنی دولت اور شان و شوکت بڑھائے گا تو بظاہر تو اسکو آزادی ملے گی مگر حقیقت میں وہ خواہشات کا غلام بن جائے گا اور دنیا اسے اپنے حساب سے چلائے گی.
لہٰذا عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنے مرکز سے جڑے رہیے، حقیقی سکون اسی میں چھپا ہے.
No comments:
Post a Comment