مجھے عادت سی ہوگئی ہے ،اب بہانے ڈھونڈنے کی ۔
آباد بستی میں، خانہ بدوشوں کی طرح رہنے کی ۔
اس کچے دل میں ،پکّے مکین بسانے کی
ہر رات ، شبِ غم منانے کی
اپنی ہی اڑان سے بیزار ہوکر ،زندانون میں مسکن بنانے کی
اپنی مشعلین خود بجھا کر ،وحشتون میں قرار ڈھونڈنے کی
کے جیسے یقین کو گمان جاننے کی
اور مجازی کو حقیقی ماننے کی
مسافر کو ایک نئی مسافت کی تیاری سے روکنے کی
ایک خوش کُن تصور کی آس میں ،یونہی صدیاں بتانے کی
محفل میں چند اشعار پڑھ کر ،سب کو رلانے کی
ہزاروں کے ہجوم میں ،وہی ایک چہرہ تلاشنے کی
یہ بھی معلوم ہے خواہش کچھ نا مناسب سی ہے
پر یوں سمجھو دوستوں ! اب آرزوئے حیات سی ہے
اب کے خواہش ہے ،محبّت میں وصل حاصل کرنے کی
چوکھٹ کے اس پار کھڑے شخص کو اپنا بنانے کی ۔
No comments:
Post a Comment