آنکھوں میں دیکھ کر بھی وہ انجاں بن گئے
ناآشنائی میں فقط مانندِ طفلاں بن گئے
میں پڑھتا رہا تمھیں اور پڑھتا چلا گیا
جو لکھنا شروع کیا تم داستاں بن گئے
تیرے جاتے ہی گلشن سارا ویراں ہوا
تیرے آنے سے سبھی دشت گلستاں بن گئے
مخاطب کیا ہمیں اس انداز سے تم نے
کہ شامِ اَلم میں بھی وجہ مسکاں بن گئے
دیکھ کر سرِ شام چراغوں کے سائے میں
کتنے ہی لوگ میرے رقیباں بن گئے
پوچھا جب بھی تمھارے گھر کا پتا ہم نے
پھر اپنے ہی شہر میں تم مہماں بن گئے
ہمیں تو کہتے رہے تم ہمارے ہو طرف دار
آج سب کے سامنے ہی حریفاں بن گئے
ہم تو محفلِ یار سے چُپ چاپ نکلے تھے
پھر کیوں ہر کہانی کا ہم عنواں بن گئے
اس آرزو میں کہ تیرے آستانے آیا کریں
تیری بستی کے ہم پیغام رساں بن گئے
مے خانے سے نکلے تم جو جام اُٹھائے ہوئے
تیری خوشبو کے پیچھے کئی کارواں بن گئے
ہوئے ہیں انجامِ اُلفت کچھ یوں بھی حماد
جو ساتھی نہ بن سکے وہ سائباں بن گئے
No comments:
Post a Comment