مختصر سی تنھائ ، کچھ رات کا اندھیرا ،
آسمان پر چمکتے ستارے ، دل کے کچھ گھاؤ
اور بس یہی قلم کا کاغذ پہ رقص شروع ھوجاتا ہے
کچھ تخیلات آتے ہیں ، کچھ زخم رستے ہیں
ان سے الفاظ بنتے ہیں ،
ایسے الفاظ
کہ جنہیں صرف قرطاس پر اترنے کی اجازت ھوتی ہے
جو راز ھوتے ہیں قلم اور ورق کے درمیان ،
جنھیں کسی راہ چلتے مسافر کے سپرد نہیں کیا جاسکتا،
جو کرب ھوتے ہیں ، جو وجع ھوتے ہیں
جنہیں انسانی روح برداشت نہیں کر پاتی ،
جو لکڑی کے صندوقوں میں لوھے کے تالوں سے مقفل کرکے رکھے جانے کے لائق ھوتے ہیں
غموں کی بھی عزت ھوتی ہے ،
پردے میں رکھے جاتے ہیں
انہیں ببانگ دہل برھنہ نہیں کیا جاتا
No comments:
Post a Comment